16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت سیلمان علیہ السلام
قسط_نمبر_2
حصہ_دوم
امام بخاری سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ دو عورتیں کسی سفر میں تھیں۔ دونوں کے شیر خوار بچے ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں ایک عورت کے بچے کو بھیڑیا لے گیا۔ اب اس ایک بچے پر دونوں عورتیں حقِ ملکیت جتانے لگیں۔ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے ’’فصل قضایا‘‘ کے اصول پر مقدمہ کی روداد سن کر فیصلہ بڑی کے حق میں دے دیا کہ بظاہر بچہ بڑی کے قبضے میں تھا اور چھوٹی اس کے خلاف کوئی گواہی بھی پیش نہ کر سکی تھی۔ مقدمہ کا فیصلہ سن کر باہر نکلیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے معاملہ دریافت کیا۔ آپ نے قصہ سن کر چھری لانے کا حکم دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں ایک بڑی کے اور دوسرا چھوٹی کے حوالے کر دیا جائے۔ بڑی نے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ کیا لیکن چھوٹی فیصلہ سن کر چیخنے چلانے لگی کہ بچے کے دو ٹکڑے نہ کرو۔ بڑی ہی کو دے دو۔ کم از کم بچہ زندہ تو رہے۔ یوں سب کو یقین ہو گیا کہ بچہ چھوٹی کا ہے اور بچہ اسے ہی دے دیا گیا۔ ۲۸؎
حضرت سلیمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی :
اے پروردگار مجھ کو بخش دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کے لیے بھی میسر نہ ہو، بے شک تو بہت دینے والا ہے۔ ۲۹؎
بار گاہِ ایزدی میں ان کی دعا قبول ہوئی۔ جیسی حکومت انھیں بخشی گئی کسی کو ایسی نصیب نہ ہوئی۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے : ایک روز آں حضورﷺ نے فر مایا کہ گذشتہ شب میں عبادت میں مصروف تھا کہ ایک سرکش جن نے بہت کوشش کی مجھے میری نماز سے بھٹکا دے۔ اللہ کی مہربانی سے میں نے اس پر قابو پا لیا اور پکڑ کر چاہا کہ اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دوں تا کہ تم سب اسے دن میں آ کر دیکھ سکو، معاً مجھے حضرت سلیمان کی دعا یاد آگئی کہ جس میں انھوں نے خدا سے درخواست کی تھی کہ مجھے ایسی حکومت عطا کر جو مجھ سے پہلے اور بعد کسی کو نہ عطا کی گئی ہو۔ اس کا خیال آتے ہی میں نے اسے لعنت ملامت کر کے چھوڑ دیا۔ ۳۰؎
ہ روایت ابو دردا ء ؓ سے یوں منسوب ہے :
نبی کریمﷺ نماز پڑھا رہے تھے کہ ہم مقتدیوں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں، میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں، آپ نے یہ بات تین مرتبہ کہی اور دورانِ نماز ہی ہاتھ آگے کو یوں بڑھایا، جیسے کسی کو پکڑنا چاہتے ہوں، نماز سے فراغت کے بعد ہم نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا، ’’ اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا ، تب میں نے تین بار کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں اور تجھ پر خدا کی لعنت بھیجتا ہوں۔ تین بار کہنے پر بھی وہ پیچھے نہ ہٹا تو میں نے چاہا کے اسے قابو کر کے ستون سے باندھ دوں۔ اگر حضرت سلمان علیہ السلام نے وہ دعا نہ کی ہوتی تو صبح کو وہ بندھا ہوا ملتا اور مدینے کے بچے اس سے کھیل رہے ہوتے۔ ۳۱ ؎
حضرت سلیمان علیہ السلام کی انفرادی خصوصیت و فضیلت یہ بھی تھی کہ وہ نہ صرف انسانوں بلکہ جنات، حیوانات، چرند پرند حتیٰ کہ ہوا پر بھی حکمران تھے۔
آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ پرندوں کی بولیاں سمجھتے بھی تھے اور ان سے باتیں بھی کیا کرتے تھے اس عظیم الشان نعمت کو آیت اللہ، یعنی اللہ کی نشانی کہا گیا ہے خود حضرت سلیمان اسے ’’ فضلِ مبین ‘‘کہتے ہیں
حضرت سلیمان کا لشکر اِن مخلوقات سے ترتیب پاتا۔ ان تمام اصناف کو بلحاظ جنس الگ الگ گروہ میں منقسم کیا جاتا۔ شیاطین کا گروہ، جنوں کا گروہ، انسانوں کا گروہ، حیوانات کا گروہ اور پرندوں کا گروہ۔ یہ سب اپنے اپنے مقام پر نظم و ضبط اور ترتیبِ صف کے اعتبار سے موجود رہتے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود کسی جنس کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ اپنے رتبے یا درجے کے خلاف آگے پیچھے ہونے کے جرم کا مرتکب ہو۔ شاہی لشکر کے یہ تمام اراکین فرماں بردار و اطاعت گزار بندوں کی طرح اپنی قطار میں موجود رہتے۔ جب آپ کا لشکر روانہ ہوتا تو انسان آپ کے سب سے قریب رہتے۔ پھر جن قطار بنا کر کھڑے ہوتے اور پرندوں کے جھنڈ آپ کے سر پر سایہ کیے رہتے۔ سب کی جگہ مقرر تھی اور اگر کوئی موجود نہ ہوتا تو آپ کو فوراً خبر ہو جاتی۔
ایک مرتبہ آپ کے لشکر کا گزر ایک وادی سے ہوا۔ جو وادیِ نملہ کہلاتی تھی۔ نملہ کی یہ وادی عسقلان کے قریب ہے۔ ابن بطوطہ کے مطابق یہ وادی صبرون و عسقلان کے درمیان ہے، بعض مفسرین اسے ملکِ شام کی وادی بتاتے ہیں۔ اسی بنا پر قرآن کی سورۃ کا نام ’’نمل‘‘ رکھا گیا ہے۔ جب یہ لشکر اس وادی کے قریب پہنچا تو وہاں بہت سی چیونٹیاں موجود تھیں۔ ملکہ چیونٹی یا شاہ مُور نے اپنی ساتھی چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر کو کیا معلوم کہ ہم اتنی بڑی تعداد میں اس وادی میں رینگ رہی ہیں۔ سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر ہمیں اپنے قدموں تلے روند ہی نہ ڈالیں اور انھیں اس کا احساس نہ ہو۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی وہ تقریر تین میل کے فاصلے سے سن لی تھی، جو وہ اپنی قوم کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے بچانے کے لیے کر رہی تھی۔ حقیر ترین حشرات الارض میں سے ایک نسل چیونٹیوں کے سربراہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی قوم کو ہر خطرے سے خبر دار کرے اور اپنی حفاظت کی تدبیر کرے۔ گویا حقیر ترین مخلوقات چیونٹی، بھڑ اور شہد کی مکھی اشرف المخلوقات کو نظم و ضبط کا درس دے رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا نظام حکومت اور شعبہ دفاع اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسان نے ان سے اسرار و رموزِ سلطنت سیکھے ہیں۔ فوج کی ترتیب و تنظیم اور عہدے بھی وہیں سے اخذ کیے ہیں۔ ان کے مختلف گروہوں کو مختلف فرائض سونپے جاتے ہیں۔ ان کا نظام پیچیدہ ہے، لیکن ترتیب کے ساتھ مرتب ہوتا ہے۔ یہ متذکرہ شاہ مور یا ملکہ چیونٹی تھوڑا سا لنگڑا کر چلتی تھی۔
یہ بھی دلچسپ سوال ہے جو حضرت قتادہؓ نے کوفہ آ نے پر ایک محفل میں امام ابوحنیفہ سے، جو اس وقت کم عمر ہی تھے، پوچھا کہ یہ چیونٹی مونث تھی یا مذکر، انھوں نے جواب دیا۔ ’’ مونث‘‘ انھوں نے کہا تمھیں کیسے علم ہوا، انھوں نے فرمایا ’’ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ قالت نملۃ‘‘ اگر ’’قال نملۃ‘‘ ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ مذکر ہے۔ ۳۲؎
کچھ محققین کے مطابق یہ چیونٹی مکھیوں کی طرح پَربھی رکھتی تھی۔ اس موقع پر بھی اسرائیلی داستانوں اور یہودی تمثیلوں میں فرق ہے کہ جن کے مطابق ان چیونٹیوں کا قد ’’بھیڑ‘‘ کے برابر تھا، جبکہ قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ وہ اتنی چھوٹی تھیں کہ شاہ مور کو یہ کہنا پڑا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تمھیں کچل ڈالے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔
جاری ہے ....
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Anuradha
10-Sep-2022 03:14 PM
بہت بہت زبردست👏👏 لکھا
Reply
Dr.Abdul Aleem khan
18-Dec-2021 11:34 AM
Shukriya
Reply
آسی عباد الرحمٰن وانی
17-Dec-2021 05:29 PM
Bht khoob Ma Sha Allah
Reply